Tehlay Wala Shezada

Tehlay Wala Shezada
Tehlay Wala Shezada

ٹھیلے والا شہزادہ

آپ کا نام علی حسن ہے اور خواجہ نظام الدین اولیاءکے خاندان سے ہونے کی بناءپر نظامی کہلائے اور ”خواجہ حسن نظامی“ کے نام سے شہرت پائی۔ تعلیم معمولی تھی۔ ابتداءمیں اخباروں میںمضامین میں لکھے‘ پھر لغت گوئی اور پندونصایح تحریر کرکے چوٹی کے ادیب بن گئے۔ آپ کا طرزِ تحریر اپنی جگہ ایک منفرد چیز ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی روانی سے عام بول چال کی زبان میں بڑی باتیں کہ جاتے ہیں۔ آپکی تحریر بڑی دل نشین اور دلآویز ہے۔ واقعی نگاری آپ کی تحریر کا عروج ہے۔ آپ کی نثرنگاری سادگی وپرکاری کی بہترین مثال ہے۔ خیال سے خیال اور بات سے بات پیدا کرنا آپ کا فن ہے اور یہ رنگ
۷۵۸۱ھ کی جنگِ آزادی کے واقعات بیان کرنے میں بہت نمایاںہے۔ سوزوگداز اور دردوغم کی المناک تصویریں آپکی مشہور کتاب غدرِ دہلی کے افسانے اور بیگمات کے آنسو میں ملتی ہیں۔ ان افسانوں میں دہلی پر انگریزون کا قبضہ ہونے کے بعد جہاں مسلمانوں پر انگریز کے ظلم و ستم کا حال معلوم ہوتا ہے وہاں شاہی خاندان کے افرادکی بے بسی اور بے کسی پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ٹھیلے والا شہزادہ کی داستان بڑی عبرت ناک اور نصیحت آموزہے۔ یہ داستان آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے بھتیجے شہزادہ ظفر سلطان کی ہے جو شہزادی کی بیپتا کی طرح بڑی ہی دردانگیز‘ عبرت ناک اور الم ناک ہے۔ 
یہ واقعہ
۱۱مئی ۷۱۹۱ئ کا ہے۔ انتہائی گرم اور چلچلاتی دھوپ میں بوڑھا ٹھیلے والا شہزادہ ایک اینٹوں کے بھٹے سے اینٹیں اٹھا کر رائے سینا(نئی دہلی) لے جا رہا تھا۔ سر پر سورج کی تیز کرنیں اور مونچھوں پر راستے کا گردو غبار اور پیشانی پر قطرات ۔ اسکے پیچھے ایک موٹر غالباً قطب صاحب سے آرہی تھی۔ موٹر بان نے راستہ لینے کیلئے کئی دفعہ ہارن بجایا لیکن بوڑھے کو سنائی نہ دیا اور موٹر ٹھےلے سے ٹکرا گئی مگر ڈرائیور ہوشیار تھا موٹر کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔ اس موٹر میں ایک سوداگر اور ایک عورت بیٹھے تھے۔ مرد نشے میں دھت تھا غیظ کے عالم میں گاڑی سے اترا اور بے چارے ٹھیلے والے کو مارنے لگا۔ ٹھیلے والااکیلا‘ ضعیف اور ناتواں تھااور سب سے بڑھ کر مفلس اور نادار۔ اول تو وہ کچھ سمجھا ہی نہیں اور دوچار کوڑے کھالئے مگر خبر نہیں دل میں کیا ہمت رکھتا تھا کہ اس نے اچانک بیل ہانکنے کا چابک لے کر جوابی حملہ کردیا اورشرابی مرد کا سرپھاڑ دیا۔ موٹر بان نے سوداگر کی مدد کرنا چاہی مگر بوڑھے کے ایک ہی وار سے اس کا چہرہ بھی لہولہان ہوگیا۔ یہ دیکھ کر موٹر میں سوار عورت نے رونا شروع کردیا اور دونوں مرد موٹر میں بیٹھ کر گالیاں دیتے ہوئے بھاگ نکلے۔ بوڑھاخاموش کھڑا مسکراتا رہا اور کہتا رہا بس ایک ہی وار میں بھاگ نکلےتیموری طمانچہ کھانا کچھ آسان نہیں۔ 
دوسرے دن رائے سینا کے تھانے میں دو زخمی ٹھےلے والے جمع تھے جو بوڑھے ٹھیلے والے کے ساتھی تھی۔ داروغہ نے پوچھاکیا تم ان کو زخمی کیا ہے؟ ساتھیوں نے کہا کہ یہ سننے سے قاصر ہے تب ایک سپاہی نے زور سے وہی سوال کیا بوڑھے نے جواب دیا ہاں میں نے مارا ہے مگر انھوں نے چار کوڑے مجھے بے وجہ مارے پھر میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا کیونکہ یہ امیر لوگ ہم غریبوں کو گھاس پھوس سمجھتے ہیں جبکہ آج سے ساٹھ برس پہلے ان کے باپ بلکہ سارا ہندوستان میرا محکوم تھا۔ داروغہ یہ سن کر مسکرایا اور سمجھا شاید یہ بوڑھا پاگل ہوگیا ہے اسلئے اسے حوالات میں بند کردی۔ دوسرے دن سٹی مجستریٹ کے سامنے بوڑھا ٹھےلے والا پولیس کی حراست میں حاضر تھا اور دونوں زخمی بھی موجود تھے۔ بوڑھے ٹھےلے والے نے بیان میں کہا” میرا نام ظفرسلطان ہے اور میں مرزا بابر کا بیٹا ہوں جو ہندوستان کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کے بھائی تھے۔ غدر کے بعد دربدر کی ٹھکریں کھانے کی بعد پھرتا پھرتا دہلی آگیا اور ٹھےلا چلانے لگا جس روز یہ واقعہ پیش آیا میں اپنے ٹھیلے پر اینٹیں لیکر رائے سینا جارہا تھا۔ میں نے پیچھے سے آنے والی موٹر کی آواز نہیں سنی کیونکہ میں بہرا ہوں موٹر والوں نے میری حالت پر رحم نہ کھایا اور مجھے کوڑے مارنا شروع کردیے۔ میرے بدن میں جو خون ہے اسے اب ظلم سہنے اور مار کھانے کی عادت ہوگئی ہے مگر پہلے نہ تھی۔غدر سے پہلے جس جگہ آپ کرسی پر بیٹھے ہیں یہ میری جگہ تھی اور شریروں اورسرکشوں کو میں اسی مقام پر سزا دیتا تھا۔ میرے دل و دماغ نے ان باتوں کو ابھی تک فراموش نہیں کیاپھر میں چار کوڑے کیسے برداشت کرسکتا تھا۔ میں نے بے شک اپنا بدلہ پورا کرلیا میں آپ کے انصاف کے سامنے اپنا سرجھکانے کو تیار ہوں۔“بوڑھے کی بات سن کر عدالت میں سناٹا چھاگیا اور ہر شخص آبدیدہ ہوگیا۔ 
عدالت نے بوڑھے ٹھےلے والے کو باعزت طور پر بری کردیا اور ان دونوں مدعیوں پر دس دس روپے جرمانہ کردیا۔ پھر مجسٹریٹ نے دریافت کیا تمہیں سرکار کی طرف سے پینشن نہیں ملتی جو تم یہ ذلیل کام کرتے ہو؟ اس پر بوڑھے نے جواب دیا میں اس میں کوئی ذلت اور شرم محسوس نہیں کرتاکیونکہ میں محنت کی روزی کماتا ہوں اور بیلوں پر حکومت کرتا ہوںاور خود بیل بن کر غلامی نہیں کرنا چاہتا۔ 
ٹھیلے والا شہزادہ دہلی میں پہاڑ گنج کی مسجد میں نماز سے فارغ ہوا تو اس دن عدالت میں موجود ایک شخص نے اس کے تمام حالات جاننے کی خواہش ظاہر کی۔ بوڑھے نے بتایا کہ کہ وہ مرزا بابر کا بیٹا ہے۔ غدر سے پہلے اگرچہ بادشاہ کی حکومت برائے نام تھی مگر عزت اور احترام میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ غدر برپا ہوا تو باغیوں نے بلاامتیاز بہت ظلم کئے لیکن جب انگریز پنجاب کی مدد سے دوبارہ دہلی پر قابض ہوئے تو بادشاہ سمیت سارا شہر بھاگ نکلا۔ میری والدہ نابینا تھیں ان کو ایک رتھ میں سوار کراکے اپنے ایک دوست کی طرف جو زمیندار تھے کرنال میںرہتے تھے‘ روانہ ہوا۔ رات کو ایک گا
ں میں قیام کیاوہاں رات کو چور بیل کھول کر لے گئے۔ صبح کو میں فکر مند ہوا پھرگاں سے ایک گاڑی مانگی مگر گاں کے زمیندار نے بہانہ کر دیا کیونکہ وہ اس طرح ہمیں لوٹنا چاہتے تھے اور یہی کچھ انھوںنے کیا۔ ہمارا مال و اسباب لوٹ کر ہمیں جنگل میں پھنکوا دیا۔ پھر ایک گنوار وہاں سے گزرا اس نے روپے پیسے کے لالچ میں والدہ کے سر پر ایک لٹھ مارا جس سے وہ شدید زخمی ہوگئےں اور اسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ میں نے انھیں وہیں ریت میں دفن کیا اور خود بہ مشکل تمام گھسیٹ گھسیٹ کر ایک درخت کے نیچے جاکر لیٹ گیا۔کچھ دیر میں ایک فوجی سوار وہاں سے گزرا میں نے اپنی ساری بیپتا سنائی وہ سپاہی بڑا رحمدل اور مسلمان تھا۔ اس نے میرا علاج کروایا جس سے میں اچھا ہوگیا اور اس کی خدمت کرنے لگا۔ پھر بمبئی آگیا اور خیراتی قافلے میں شامل ہوکر مکہ معظمہ چلا گیا۔ وہاں دس برس گزار کر مدینہ حاضری دی اور پانچ برس وہاں گزارے ۔ اس کے بعد شام اور بغداد ہوتا ہوا ایک میمن بھائی سے ساتھ کراچی آگیا۔ پھر دہلی کی یاد ستانے لگی اور یہاں آگیا اور ریل میں مزدوری شروع کی۔ کچھ پیسے بچائے اور ساجھے میں یہ ٹھےلا خریادا پھر آہستہ آہستہ ساجھی کا حصہ ادا کرکے اپنا ذاتی ٹھےلا بنالیا اور اب اسی پر میری گزراقات ہے۔ سائل نے بہرے پن کے متعلق پوچھا تو ٹھیلے والے شہزادہ نے بتایا کہ گاں والوں نے مارا تو اسی دماغی چوٹ کی وجہ سی قوتِ سماعت سے محروم ہوگیا اب صرف بائیں کان سے کچھ سن سکتا ہوں دایاں بالکل بیکار ہے۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ اب دنیا بھر کے عیب سننے سے کان قاصر ہیں۔ 
سائل نے ٹھیلے والے شہزادے کی عبرتناک داستان سن کر اپنی کتاب میں لکھنے کی اجازت چاہی تو شہزادے نے اجازت دیتے ہوئے کہا ضرور لکھدو مگر یہ بھی لکھ دینا کہ 
ہر گزرنے والی بات‘ گزرنے والا وقت اور گزرنے والی راحت تکلیف دہ اور جھوٹی ہے مگر اس میں عبرت ضرور ہے۔ 
بقول شاعر 
گزررہی ہے زندگی‘ بہ صد الم بہ صد خوشی 
طرح طرح کی عبرتیں قدم قدم لئے ہوئے
LihatTutupKomentar