Nasir kazmi ghazals

Nasir kazmi ghazals
Nasir kazmi ghazals

ناصر کاظمی غزل 1

شعر نمبر
۱

دل میں ایک لہر سی اُٹھی ہے ابھی 
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی 
تشریح

شاعر گردو پیش کے واقعات سے متاثر ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے محسوس کرتا ہے، بیان کر دیتا ہے۔ لیکن جہاں بیان اور اظہار کی زادی نہ ہو وہاں شاعر اپنے اندر ایک گھٹن محسوس کرتا ہے۔ اس کے دل میں اک کرب انگڑائیاں لیتا ہے۔ اس شعر میں بھی یہی کیفیت محسوس ہوتی ہے کہ اگر گرمی شدید ہو، ہوا رکی ہوئی ہو تو سارے کام معطل ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں وہا کا کوئی جھونکا آجائے تو وہ گویا زندگی کا پیغام ہوتا ہے۔ امنگیں اور آرزوئیں انگڑائیاں لینے لگتی ہیں۔ یہی کیفیت اس وقت ہماری ہے۔ ہم جو عرصے سے خاموش ہیں، اظہار کی تمام قوتوں کو ہم نے جبراً خاموش کر دیا ہے۔ اسی لئے ہم اپنے دل میں ایک گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ اب حالات میں تغیر آتا نظر آرہا ہے۔ گویا ہوا کا تازہ تازہ جھونکا آیا ہے جس سے دل میں آرزو
ں اور امنگوں کی لہریں اٹھنے لگی ہیں۔ یعنی اب ہمےں اپنے احساسات اور خیالات کے اظہار کا پورا موقع ملے گا 


شعر نمبر
۲

شور برپا ہے خانہ دل میں 
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی 
تشریح

دل مثل گھر کے ہے اور گھر دیواروں سے گھرے ہوئے حصے کو کہتے ہیں۔ ہماری دل میں زبردست شور برپا ہے اور یہ شور اس سبب سے ہے کہ گھر کی کوئی دیوار گری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دل خواہشات اور آرزو
ں کا مرکز ہے۔ اب پھر ہماری کسی آرزو کاخون ہوا ہے۔ اب پھر ہماری کوئی خواہش دم توڑنے لگی ہے۔ اسی لئے دل میں نالہ و فریاد کی کیفیت پیدا ہوئی ہے 


شعر نمبر
۳

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا 
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی 
تشریح

تمام جذبوں کا تعلق دل سے ہے۔ غم و الم کا، مسرت و خوشی کا، غرض ہر جذبہ دل کی کیفیت سے ابھرتا ہے۔ دل اگر شاداں و فرحاں ہے تو ہر شے میں مسرت و انبساط موجِ زن نظر آتی ہے۔ لیکن دل اگر اداس و غمگین ہو تو ہر شے اداس معلوم ہوتی ہے، ماتم کناں نظر آتی ہے۔ شاعر اسی کیفیت کو اس شعر میں بیان کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ دنیا میں رونقیں اپنے عروج پر ہیں، ہر شے شگفتہ و شادماں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس دنیا میں میرا جی نہیں لگتا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کس چیز کی کمی ہے۔ میرا دل محبوب کے فراق میں غم زدہ ہے۔ اسی لئے اداس و غمگین رہتا ہے 


شعر نمبر
۴

تو شریکِ سخن نہیں ہے تو کیا 
ہم سخن تیری خامُشی ہے ابھی 
تشریح

چہرہ اندرونی کیفیات کا عکاس ہوتا ہے اور جو واقف ہوتے ہیںوہ چہرے کی کیفیات کو دیکھ کر ہی دل کی کیفیات کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ شاعر نے یہی بات بڑے خوبصورت انداز میں اس شعر میں بیان کی ہے۔ کہتے ہیں کہ اے میرے محبوب! تو محفل میں موجود ہے لیکن خاموش، کسی سے بات نہیں کر رہا ہے مگر تو ہم سے ہم کلام ہے۔ اس طرح کہ تیری خاموشی کے سبب تیرے چہرے پر جو تاثرات ابھر رہے ہیں وہ ہم سے تیری کیفییت بیان کر رہے ہیں۔ گویا تیری خاموشی سے ہم باتیں کر رہے ہیں اور یہ اعزاز محفل میں ہمارے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ 
یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ محبوب خاموش ہے مگر اس کے چاہنے والے اس کے چہرے کے تاثرات سے اس کے دل کو مفہوم اخذ کررہے ہیں۔ اس طرح وہ خاموش ہوتے ہوئے بھی محفل میں سب سے ہم کلام ہے 


شعرنمبر
۵

یاد کے بے نشان جزیروں سے 
تیری آواز آ رہی ہے ابھی 
تشریح

شاعر کہتا ہے ہم نے قرارِ یار میں زندگی بتا دی۔ تیری ےادوں کے حسین لمحات کے سہارے زندگی کا طویل سفر طے کر لیا۔ لیکن اب تیری یادوں کے عکس بھی دھندلانے لگے ہیں۔ ماضی کرے دریچوں سے جو تیری نصویر ابھرتی تھی وہ دھندلی ہو چلی ہے۔ تیری یادوں جو سرمایہ
¿ زندگی تھیںوہ خواب ہو چکی ہیں۔ البتہ جب کبھی ہم ماضی میں جھانکتے ہیں تو تیری یادوں کے ویرانوں میں تیری ہی آواز گونجتی محسوس ہوتی ہے۔ اس طرح تجھ سے تعلق اب بھی باقی ہے 


شعر نمبر
۶

شہر کی بے چراغ گلیوں میں 
زندگی تُجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی 
تشریح

شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی غیر موجودگی سے دنیا کی تمام رونق ختم ہو جاتی ہے۔ ہر طرف اداسی مسلط ہو جاتی ہے۔ ہر شے ویران دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ دل اداس و غمگین ہوتا ہے۔ لیکن یہاں تو حالات اس کے بر عکس ہیں۔ انقلاباتِ زمانہ کے سبب رونقیں ختم ہو چکی ہیں۔ دنیا کے تمام ہنگامے اور دلچسپیاں بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں۔ ہر طرف اداسی ہے، ویرانہ ہے، ایسے میں تیری یادیں اور تڑپا رہی ہیں اور میں بے ساختہ شہر کی ویران گلیوں میں تجھے تلاش کرتا پھر رہا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک زمانے کے سبب میں مبتلائے غم ہوں اور دوسرے محبوب کی تاد مجھے تڑپا رہی ہے 


شعر نمبر
۷

سو گئے لوگ اس حویلی کے 
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی 
تشریح

عشق ہر دل پر اثر کرتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ کوئی اس کا اظہار کر دیتا ہے اور کوئی خاموش رہتا ہے۔ ہم جسے محبوب کہتے ہیں سنگدل اور بے وفاگردانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسے ہم سے محبت نہیں۔ یہ بات بنیادی طور پر غلط ہے۔ ہمیں اپنے محبوب سے جتنی محبت ہے، انتا ہی ہمارے محبوب کو ہم سے ہے۔ ہم اگر محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے گلی گلی آوارہ پھرتے ہیں تو وہ سنگدل بھی ہمارے انتظار میں رات بھر اپنے گھر کی کھڑکی کھلی رکھتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ ہم رات کے سناٹی اور تاریکی میں اس طرف ضرور آئیں گے۔ اس شعر میں ایک بات یہ بھی ہے کہ محبوب یہ کام اس وقت کرتا ہے جب تمام لوگ سو چکے ہوں۔ کیونکہ اسے ڈر ہے کہ گھر کے مکین اس کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے۔ اس لئے کہ ان کا تعلق اعلیٰ طبقے سے ہے۔ شاعر نے ”حویلی“ کے الفاظ سے اس کی وضاحت کر دی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم اگر محبوب کے فراق میں آوارہ پھرتے ہیں تو وہ بھی ہمارے انتظار میں رات کی تاریکی میں آنکھیں بچھائے رہتا ہے کہ زمانہ طبقاتی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے 


شعر نمبر
۸

وقت اچھا بھی آئے گا ناصر 
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی 
تشریح

زندگی امید و بیم کا دوسرا نام ہے۔ کبھی تو آدمی زمانے کے حالات سے مایوس ہو کر انجانے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے اور کبھی زمانے کو دکھوں اور تلخیوں سے جھانکتی ہوئی امید کی کرنیں نظر آتی ہیں جن کے سہارے آدمی آگے بڑھنے لگتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔ شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ مانا زندگی دکھوں سے بھری ہوئی ہے، زمانے کی تلخیوںنے ہمیں ایک عجیب سی گھٹن اور حبس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ مگر مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ زمانہ تغیر پذیر ہے۔ حالات بدلتے ہیں، ہر رات کے بعد دن ہے، ہر خزاں کے بعد بہار ہے۔ اس لئے یقین رکھو کہ حالات ضرور بہتر ہوں گے۔ یہ رات یہ گھنگھور اندھیرا ضرور اجالے میں تبدیل ہو جائے گا
 Nasir Kazmi - Ghazal

ناصر کاظمی غزل 2

شعر نمبر
۱

فرِ منزل شبِ یاد نہیں 
لوگ رخصت ہوئے کب، یاد نہیں 
تشریح

شاعر کا یہ شعر ان کے دکھوں کا آئینہ دار اور اضطراب و بے چینی کا مظہر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں زندگی کے طویل سفر میں تکالیف و مصائب سے ہی سابقہ رہا ہے۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا کہ چین نصیب ہوا ہو۔ گویا میری زندگی سفر کی ایک سیاہ رات کی مانند تھی کہ کہیں سے روشنی کی کوئی کرن نہیں نظر آئی۔ اس صورت حال نے مجھے ایسا بد حواس کیا کہ کچھ یاد نہیں رہا۔ یہاں تک کہ اب یہ بھی یاد نہیں کہ جو لوگ میرے شریکِ سفر تھی وہ کب میرا ساتھ چھوڑ گئے اور میں اس تاریک سفر میں تنہا رہ گیا 


شعر نمبر
۲

دل میں ہر وقت چبھن رہتی ہے 
تھی تجھے کس کی طلب، یاد نہیں 
تشریح

محبوب تغافل پسند ہے۔ وہ کبھی محبت کا جواب محبت سے نہیں دیتا۔ اس لئے اس کے عشاق ہمیشہ اس خلش میں مبتلا رہتے ہیں کہ محبوب کس کو چاہتا ہے۔ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ محبوب خود اس سے محبت کرتا ہے تو اطمینان ہو جائے اور اگر اس کے برعکس وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے تو بھی طبعیت کو اطمینان آ جائے۔ شاعر یہی کہتا ہے کہ آج تک ہمارے دل میں یہ خلش ہے کہ ہمارا محبوب کس کو چاہتا ہے۔ 
شعر میں اگر تجھے کا مشارالیہ دل کو قرار دے دیا جائے یعنی تجھے دل کی طرف اشارہ ہے تو شعر کا مفہوم یہ ہوگا کہ دل میں آج بھی ہر وقت جبھن رہتی ہے۔ کانٹی کی طرح کوئی چیز کھٹکتی رہتی ہے اور لمحے بھر کو بھی سکون میسر نہیں آتا۔ آخر اے دل! تچھے کس کی طلب تھی کہ آج تک اس کی یاد کانٹا بن کر دل میں پیوست ہے۔ کیا تجھے یاد نہیں؟۔ اتنا انجان نہ بن، یہ چبھن تو خود غمازی کر رہی ہے کہ محبوب کی یاد آج بھی تیری دل میں کھٹکتی ہے 


شعر نمبر
۳

بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار 
یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں 
تشریح

وقت اور حالات زندگی کے دھارے کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے ایک زمانہ گزر گیا۔ زندگی کے نرم و گرم سب دیکھ لئے۔ ہر نشیب و فراز سے گزر گئے۔ اب اس مقام پر آگئے ہیں جہاں ماضی کا ہر لمحہ خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے۔ ماضی میں کن حالات سے گزرے، کیسے کیسے نشیب و فراز سے سابقہ رہا، کون کون ہمارا رفیق رہا، کیسے کیسے دوستوں سے ہم صحبت رہے سب ایک خیال بن کر رہ گیا ہے۔ ایک افسانہ ہے جو کبھی ہم نے پڑھا تھا اب یاد نہیں۔ اگر اب یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا یاد آئے تو چند ایک واقعات ابھرتے ہیں، سب نہیں۔ غرض وقت کے ہاتھوں سارا فسانہ تمام ہو چکا ہے 


شعر نمبر
۴

ایسا اُلجھا ہوں غمِ دنیا میں 
ایک بھی خوابِ طرب یاد نہیں 
تشریح

شاعر کہتا ہے کہ ایک زمانہ وہ تھا جب امنگیں تھیں، آرزوئیں تھیں اور اُن کی تسکین کا سامان بھی مہیا تھا۔ زندگی کے لمحات حسین سے حسین تر تھی اور ہم ان میں کھوئے ہوئے تھے۔ لیکن ایک زمانہ اب یہ آیا ہے جب ہم زندگی کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ روز نت نئے مسائل سے سابقہ ہے۔ گویا یہ زندگی مسلسل غموں میں گھری ہوئی ہے۔ پیہم مصائب کا شکار ہے اور ہم اس مےں ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ خوشی کا کائی لمحہ ہمیں یاد نہیں بلکہ خوشی کا تصور بھی ذہن میں نہیں رہا 


شعر نمبر
۵

یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم 
یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں 
تشریح

زمانہ کا عام مزاج یہ ہے کہ لوگ چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ جب حالات اچھے ہوتے ہیں تو لوگ دوستی کا دم بھرتے ہیں۔ قریب سے قریب تر ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جونہی حالات پلٹا کھاتے ہیںلوگ دور ہوتے چلے جاتے ہیں، ان کی ساری دوستی ساری چاہتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ لیکن شاعر کہتا ہے کہ ہمارا معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ ہماری اس وقت جو حالت بگڑی ہوئی ہے اس کے سبب سے دوستوں نے ہم سے بے تعلقی اور بے مروتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دور بڑا ہی نازک ہے۔ اس دور میں وفا کی امید رکھنا بےکار بات ہے۔ ہمیں کبھی ہمارے احباب نے التفات کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ ہماری دوستی تو صرف رسمی تھی جس میں محبت سے زیادہ وقت اور حالات کو دخل ہوتا ہے۔ اس لئے شکوہ کرنا فضول ہے۔ انہیں جب ہمارے حالات اچھے تھے اس وقت کب ہمارا خیال تھا، اس وقت کب ان کا رویہ ہمارے ساتھ اچھا تھا جو اب ہو گا؟ 


شعر نمبر
۶

رشتہ جان تھا کبھی جن کا خیال 
اُن کی صورت بھی تو اب یاد نہیں 
تشریح

وقت بڑا ظالم ہے۔ اس کے ہاتھ میں حالات کا کوڑا ہوتا ہے۔ جس سے وہ دھکیلتا رہتا ہے اور آدمی کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب ہم ہمہ وقت محبوب کے خیال میں مستغرق رہتے تھی۔ اس کے تصور و خیال سے ہی ہماری زندگی کی سانسوں کا رشتہ تھا۔ لیکن وقت کی کارگزاری دیکھئے کہ اب بھی ہم وہی ہیں مگر ہمیں اس محبوب کی صورت بھی یاد نہیں جس کا خیال کبھی ہماری زندگی ہوا کرتا تھا 


شعر نمبر
۷

یاد ہے سیرِ چراغاں ناصر 
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں 
تشریح

اے ناصر ہم میلہ چراغاں دیکھنے گئے۔ یہاں مسرت و شادمانی کا ماحول ہوتا ہے۔ وہاں کسی اجنبی کے حسن کے آگے ہمارے دل کا چراغ گل ہو گیا۔ ساری شادمانی اور مسرت رخصت ہوگئی لیکن وہ اجنبی کون تھا کچھ یاد نہیں۔ لیکن آج تک اس کی یاد سے دل بجھا بجھا رہتا ہے
LihatTutupKomentar