Chor - 2nd year Urdu Khulasa
Chor
2nd year Urdu Khulasa
چور
تعارفِ افسانہ
اشفاق احمد صاحب کا یہ افسانہ چور ان کے مجموعے سفرِ مینا سے انتخاب
ہے۔ زندگی نام ہے آزمائش کا، امتحان کا۔ زندگی کی اس گاڑی کو چلانے کے لئے اچھی
سوچ، اچھی عقل اور اچھی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اگر یہ تینوں چیزیں میسر ہوں تو وہ
ایک کامیاب انسان بنتا ہے لیکن ان کی عدم موجودگی کی صورت میں انسان غلط روی
اختیار کرکے اپنی دین و دنیا دونوں تباہ کرلیتا ہے اور یہی حقیقیت اشفاق صاحب کے
افسانہ کی بنیاد ہے۔
تعارفِ مصنف
اشفاق احمد کے بارے میں لکھتے ہیں:
اشفاق صاحب معاشرے کے سچے اور بے باک ترجمان ہیں۔ ان کا
افسانہ ہو یا ڈرامہ وہ اسمیں جذباتِ انسانی کی عمدہ عکاسی کرتے ہیں۔ (احمد ندیم قاسمی)
مرکزی خیال
اشفاق صاحب کا یہ افسانہ معاشرے پرایک دردناک طنز ہے۔
اور اس کا مرکزی خیال کچھ یوں ہے:
کوئی انسان ماں کی گود سے بدکردار اور برا بن کر پیدا
نہیں ہوتا بلکہ یہ معاشرے کی ناہمواریاں ہی ایسے کرداروں کو جنم دیتی ہیں اور
پروان چڑھاتی ہیں۔
خلاصہ
ایک چور رات کے اندھیرے میں ایک غریب خاندان کے گھر میں
چوری کی نیت سے داخل ہوتاہے۔ کمرے میں داخل ہوکر ایک الماری کھولتا ہے جس میں
دواوں کی شیشیاں بھری ہوتی ہیں۔ اسی الماری کے خانے میں سے اسے ایک لفافہ ملتا ہے
جس میں ایک سو ستر روپے اور ایک خط رکھا ہوتا ہے۔ چور لفافہ منہ میں دبا کر
مسروروشادمان نکل جاتا ہے۔ گھر پہنچ کر لفافہ کھولتا ہے اور خط نکال کر پڑھتا ہے۔
خط میں کسی شکیلہ بیگم نے اپنے بھائی کو اپنے بیمار بیٹے
کے علاج کے لئے رقم نہ دینے پر شکوہ کیا تھا اور لکھا تھا کہ ادھار وغیرہ لے کر
علاج کے لئے رقم مہیا کرلی گئی ہے اور وگ بیٹے کو بغرضِ علاج پنڈی لیجانے والے
تھیں۔ یہ حقیقیت جان کر چور کو سویا ہوا ضمیر بیدار ہوگیا۔ رات اس نے سخت اضطراب
میں کاٹی اور صبح رقم لوٹانے گھر سے نکلا مگر اسے جائے واردات پر پولیس والے تفتیس
کرتے نظر آئے۔ وہ خوفزدہ ہوکر داتا دربار چلا گیا۔ اسکا ضمیر اسے چین نہ لینے دیتا
تھا۔ اگلے دن وہ پھر شکیلہ بیگم کے گھر کی طرف گیا۔ اس نے چاہا کہ رجسٹری کا لفافہ
پیسوں سمیت اندر اچھا ل دے لیکن ہمت نہ ہوئی۔
چور رات پھر اپنے ضمیر سے لڑتا را اور بالآخر اس کے آگے
ہتھیار ڈال دئیے۔ صبح کو نہا دھو کر سیدھا شکیلہ بیگم کے گھر پہنچا کنڈی کھٹکھٹا
کر انتظار کرنے لگا کہ جونہی دروازہ کھلے وہ لفافہ اندر پھینک کر روانہ ہوجائے گا۔
دروازہ کھلا لیکن چور کی ہمت نہ ہوئی۔ اس نے یونہی بات بنادی اور وہاں سے چلا آیا۔
اسکے ضمیر نے پھر اس کی لعنت ملامت شروع کردی اور بالآخر
اس کی قوت مدافعت جواب دے گئی۔ اس نے ایک ٹرانزسٹر ریڈیو چرا کر بیچ دیا اور قصور
وقت گزارنے چلا گیا لیکن یہاں بھی اس کا ضمیر آسودہ نہ ہوسکا۔ ایک ہفتے کے بعد وہ
پھر لاہور آیا اور سیدھا شکیلہ بیگم کے گھر پہنچا۔ جب وہ گلی کے موڑ پر پہنچا تو
اندر سے بچے کا جنازہ باہر نکل رہاتھا۔ بچے کی حالت بہت خراب تھی۔چور نے آگے بڑھ
کر میت کو کندھا دیا۔ بہت سے لوگ باتیں کررہے تھے اور چور کو برا بھلا کہہ رہے تھے
جس نے سفرخرچ کی رقم چرا کہ بچے کی جان لے لی تھی۔
چور کے ضمیر نے اس کی گردن پر زور سے دھپا مارا۔ وہ سڑک پر گر گیا۔ لوگوں نے پکڑ کر اسے اٹھایا۔ جنازہ میانی صاحب پہنچ گیا۔ تدفین سے فارغ ہوکر لوگ گھروں کو لوٹ گئے۔ چور نے پھولوں کی ایک ٹوکری خریدی اور سقے کو پیسے دے کر ساری قبر پر چھڑکاو کوایا اور سارے پھول قبر پر ڈال دیے اور بہت دیر وہاں بیٹھا رہا۔ اس نیک کام کی بدولت اس کے ضمیر کا بوجھ بالکل ختم ہوگیا۔