Sir Syed Ahmed Khan
Sir Syed Ahmed Khan
سرسید احمد خان
حالات ِ زندگی
سرسید احمد خان ۷۱۸۱ءمیں دہلی میں پیدا ہوا۔
والد کا نام میر تقی تھا جو ایک درویش منش بزرگ تھے۔ سرسید کی پرورش میں ان کی
والدہ عزیز النساء بیگم کا بڑا ہاتھ تھا۔ جنہوں نے سرسید کی تعلیم و تربیت زمانے
کی ضروریات کے مطابق کی۔۸۳۸۱ءمیں سرسید دہلی میں سرشتہ دار کے عہدہ پر مقرر
ہوئے اس کے بعد منصفی کا امتحان پاس کرکے منصف ہوگئے۔ ۲۴۸۱ءمیں بہادر شاہ ظفر کی
طرف سے ان کو جواد الدولہ عارف جنگ کا خطاب ملا۔
تصانیف
سرسید کی مشہور تصانیف میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
- آثار
الضادید
- آئین
اکبری
- تاریخ
ضلع بجنور
- رسالہ
اسباب بغاوت ہند
- تصحیح
تاریخ فیروز شاہ
- تین
الکلام
- تفسیر
الکلام
- تفسیرالقرآن
- خطباتِ
احمدیہ
طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات
سرسید کے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
'قدیم رنگ
سرسید نے سب سے پہلے اپنے بھائی کے اخبار سید الاخبار میں مضامین
لکھنا شروع کئے۔ آثارالضادید میں وہی قدیم اسلوبِ بیان ملتا ہے۔ بلکہ ۷۵۸۱ءتک سرسید نے جو کچھ لکھا
ہے امیں یہی رنگ نمایاں ہے۔ یعنی الفاظ کا بے محل استعمال اور قواعد سے بے پروا۔
وہ تحریر یا تقریر کی رو میں گرامر کی کچھ پرواہ نہیں
کرتے تھے ۔وہ ان قیدوں سے جو شاعروں اور منشیوں نے مقرر کی ہیں بالکل آزاد ہیں۔ (حالی)
وہ دور ہی ایسا تھا کہ قواعد کی پابندی سخت نہ تھی۔
الفاظ کی بے ترتیبی عام تھی۔ اردو فقروں میں اکثر دھوکہ ہوتا تھا کہ فارسی کا
ترجمہ ہیں لیکن سرسید کو اس امر کا احساس تھا کہ اس قسم کی تحریر بہتر نہیں ہے۔
جدید رنگ
سرسید کی شخصیت بڑی زمانہ شناس تھی۔ انہوں نے زمانے کا
رنگ پہچان لیا تھا۔ جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کی سیاسی، تمدنی، تہذیبی
اور معاشرتی زندگی کا نظام درہم برہم ہوچکا تھا۔ سرسید نے ایک مصلح قوم ہونے کی
حیثیت سے اپنا مقصد حیات، مسلک زندگی اور لائحہ عمل متعین کرلیا اور تحریرو تقریر
کے ذریعہ قومی و ملکی، مذہبی، معاشرتی، اخلاقی، علمی اور تعلیمی خدمات شروع کیں۔
انہوں نے آثار الضادید کو آسان زبان میں شائع کیا۔
سادگی و روانی
نثر کا روز مرہ کی سادہ بات چیت کی زبان سے قریب تر ہونا
بہت ضروری ہے۔ سرسید نے اپنی نثر کو اسی نصب العین پر پورا اتارنے کی پوری کوشش کی
ہے۔ اس میدان میں وہ اسٹیل اور ایڈیسن سے متاثر نظر آتے ہیں۔ جس طرح ایڈیسن کے
متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے ادب کو درباروں اور محلوں سے نکال کر قہوہ خانوں اور
بازارون تک پہنچا دیا۔ اسی طرح سرسید نے اردو ادب کو خانقاہ، دربار اور کوچہ و بام
سے نکال کر دفتروں، تعلیم گاہوں اور متوسط طبقے کے دل و دماغ تک پہنچا دیا اور اس
سے زندگی کی رہنمائی کا کام لیا اور اردو نثر کو اس قابل بنادیا کہ وہ علمی کام
کرسکے۔ سرسید پیچیدہ سیاسی مسائل، مذہبی نکات، اور دشوار اصلاحی مباحث کو بھی
نہایت صفائی، سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ بیان کردیتے ہیں۔ سرسید نے فلسفیانہ،
سائنسی اور تنقیدی مضامین میں بھی سادگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور ہر جگہ
موضوع کی فطرت کے مطابق زبان استعمال کی ہے۔ انہوں نے کسی بحث میں بھی اصطلاحیں
استعمال نہیں کی ہیں بلکہ ہر جگہ ان کی زبان عام فہم اور رواں ہے۔ ان کی تحریر کا
جادو ہر شخص کو مسحور کرلیتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا کمال اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب وہ
کسی عملی مسئلہ پر بحث شروع کرتے ہیں اور ان کی بحث اتنی سادہ، رواں اور مدلل ہوتی
ہے اسے تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔
مقصدیت
یہ مقولہ کہ طرزِ ادا مصنف کی ہستی کا آئینہ دار ہوتا ہے
سرسید پر صادق آتا ہے۔ ان کے طرزِ تحریر میں ان کی ہمہ گیر شخصیت ان کی زندگی اور
ان کے ماحول کا مشترکہ ہاتھ تھا۔ سرسید پہلے ایک مصلح تھے پھر ایک ادیب ۔ ان کا
طرز ایک ذریعہ تھا مقصد نہیںتھا۔ اپنی بات دوسروں تک پہنچانا یہی حقیقت سرسید کے
انداز کا راز ہے۔ انہوں نے اپنی نثر سے قومی اصلاح کا کام لیا ہے۔ یہی وجہ تھی جو
سرسید کے لئے کہا گیا:
سرسید سے معقولات الگ کرلیجئے تو وہ کچھ نہیں رہتے۔ (مہدی آفادی)
تہذیب الاخلاق کے تمام مضامین میں مقصدیت اور تبلیغی رنگ
پایا جاتا ہے۔ تبلیغی نثر اردو میں سرسید سے پہلے بھی موجود تھی لیکن اس کی زبان
صاف اور سادہ نہیں تھی۔
ظرافت
سرسید ایڈیسن اور اسٹیل سے متاثر ضرور نظر آتے ہیں لیکن
انہوں نے ان کا مکمل رنگ اختیار کیا ہے۔ کیونکہ ایڈیسن نے اصلاح احوال کے لئے
مزاحیہ انداز اختیار کیا ہے اور اپنے معاشرے کی بد اخلاقیوں اور برائیوں کا دل
کھول کر تمسخر اڑایا ہے۔ سرسید میں مزاح نگار کی صلاحیتیں کم تھےں اس لئے وہ مکمل
طور پر ان کا رنگ اختیار نہ کرسکے۔ انہوں نے کوشش ضرور کی ہے اور اس سے موقع محل
کے مطابق کام لیا ہے۔ اس کی بہترین مثال ان کے مضمون طریق تناول طعام میں ملتی ہے۔
جس میں انہوں نے مزاحیہ انداز میں یہ بتایا ہے کہ مسلمان کس برے طریقے سے کھانا
کھاتے ہیں۔
تمثیلی رنگ
مقالات میں تمثیلی رنگ اختیار کرنے کا سہرا سرسید کے سر
ہے۔ اس سلسلہ میں ان مضامین میں امید کی خوشی سے بہتر مضمون شاید ہی دوسری زبانوں میں اردو ادب میں تو اس کا
ثانی نہیں ملتا۔ سرسید کی فطرت میں چھپی ہوئی رومانیت اس مضمون میں نمایاں ہے۔ اور
اس نے اردو نثر نگاری میں ایک نیا باب کھالا ہے۔ اس کا مقابلہ چارلس لیمپ کے مضمون ڈریم چلڈرن سے کیا جاسکتا
ہے۔
مقالہ نگاری
اردو ادب کی تاریخ میں سرسید پہلے شخص ہیں جہنوں نے فن
مقالہ نگاری کی ابتدا کی۔ سرسید کے اخبارسوسائٹی گزٹ اورتہذیب الاخلاق سے پہلے بہت سے اخباروں اور رسالوں میں مذہبی، اخلاقی اور علمی
مقالے شائع ہوئے تھے۔ لیکن سرسید نے نئے موضوعات پر قلم اٹھایا، خوشامد، بحث و
تکرار، رسم ورواج اور سویلزیشن وغیرہ پر انہوں نے صاف اور سادہ زبان میں مقالے
لکھے۔ سرسید نے آزادی رائے پر ایک اصلاحی مقالہ تحقیقی رنگ میں لکھا۔
تہذیب الاخلاق
انگلستان سے واپسی پر انہوں نے انگلستان کے مشہور
اخبارات اسپیکٹیٹر اور ٹیٹلڑ کے انداز پر رسالہ تہذیب الاخلاق نکالا۔ اس سے انہوں
نے نہ صرف اپنی نثر نگاری کی ابتدا کی بلکہ اردو نثرنگاری کے لئے ایک صحیح اور
سیدھا راستہ کھول دیا۔
سرسید نے کام کی زبان میں کام کی باتیں لکھنا سکھائیں۔
تہذیب الاخلاق نے مردہ قوم میں زندہ دلی کی ایک لہر پیدا کردی ۔ قوم میں ایک غیر
معمولی جوش عمل پیدا ہوا ایک نئی زندگی نے انگڑائی لی جس نے ہر شعبہ فکر کو بدل
دیا۔ (پروفیسر آل احمد سرور)
دبستانِ سرسید
سرسید انیسویں صدی کے ہندوستان کی عظیم شخصیت رہبر و
مصلح تھے۔ وہ مسلمانوں کے اخلاق، مذہب، معاشرتی زندگی، تعلیم، رسم و رواج اور زبان
و ادب وغیرہ کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ اس اصلاحی کوشش میں ان کو محسن الملک، مولوی
چراغ علی، مولوی ذکاءاللہ، حالی نذیر احمد، شبلی نعمانی اور مولوی زین العابدین
جیسی شخصیتیں مل گئیں۔ جنہوں نے سرسید کے دوش بدوش اس عظیم مقصد کی تکمیل کی کوشش
کی جس کے لئے سرسید نے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ اس تحریک نے مسلمانوں کی کایا
پلٹ دی۔
عظمتِ سرسید
سرسید کی عظمت کو ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے:
سرسید نے ادب اور معقولات پر جس حد تک مجتہدانہ رنگ
چڑھایادراصل ان کی اولیات میں داخل ہونے کے لائق ہے۔ یہ ان ہی کے قلم کی آواز
بازگشت ہے جو ملک مےں بڑے بڑے مصنف کے لئے دلیل راہ بنی۔ آج جو خےالات بڑی آب و
تاب اور عالمانہ سنجیدگی کے ساتھ مختلف لباس میں جلو ہ گرکئے جاتے ہیں دراصل اسی
زبردست اور مستقل شخصیت کے عوارض ہیں۔ ورنہ پہلے یہ جنس گراں باوصف استطاعت اچھے
اچھوں کی دسترس سے باہر تھی۔ سرسید کے کمالات ادبی کا عدم اعتراف صرف ناشکری صرف
ناشکری ہی نہیں بلکہ تاریخی غلطیہے۔ (مہدی آفادی)